MEHARBAAN BY NABILA AZIZ .
PUBLISHED IN: SHUAA DIGEST FEBRUARY 2011
👇
“یہ کیا کہ رہی ہو تم۔میں تم سے جھوٹ کیوں بولوں گا۔”زاویار نے اپنے اعصاب کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔
وبدصورت کیسی ہوتی ہے۔؟خوبصورت ”
“تمہاری بہن جیسی۔تمہاری بھابھی جیسی۔تمہاری ماں جیسی۔کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں ان جیسی خوبصورت ہوں؟یہ بدصورت شکل ان کے سامنے ماند پڑجاتی ہے۔میں ان کو دیکھتی ہوں تو اپنے آپ کو دیکھنے کو دل نہیں چاہتا۔چڑ ہوتی ہے مجھے اپنے آپ سے۔مجھے خود اپنے آپ سے چڑ اور کوفت ہوتی ہے تو تم کیسے برداشت کرلیتے ہو مجھے۔دل تو نہیں چاہتا ہوگا نا؟میں تو تمہارے ساتھ۔”
“شٹ اپ۔اپنی زبان بند رکھو۔”وہ ایکدم غصے میں آگیا۔امل دو قدم پیچھے ہٹ گئی بلکہ دہل گئی تھی۔وہ آج اس سے اس لہجے اور انداز میں نہیں بولا تھا۔
“آٹھ دس ماہ ہوگئے ہیں تمہیں آج مجھے جھوٹا کہنے کھڑی ہوگئی ہو۔؟کیا جھوٹ بولا ہے میں نے؟یہ کہ تم خوبصورت ہو؟”زاویار نے اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا اور آئینے کے سامنے کھڑا کردیا۔
“دیکھو اپنے آپ کو اور بتاؤ مجھے کہ کہاں سے بدصورت ہو تم؟رنگت سفید ہونا خوبصورتی نہیں ہے۔اگر تمہیں رنگت ہی گوری چٹی کرنی ہے تو کسی بھی بیوٹی پارلر چلی جاؤ۔”
“تمہارے اندر جو یہ خوبصورتی اور بدصورتی کا خناس بھرا ہے نا اسے ختم کردو ورنہ یہ سب ختم کردے گا۔سارے کیے کرایے پہ پانی پھیر دے گا۔”زاویار نے اسے کندھوں سے تھام کر جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
No comments:
Post a Comment